Orhan

Add To collaction

انکھوں میں انسووں کو

آنکھوں میں آنسوؤں کو ابھرنے نہیں دیا
مٹی میں موتیوں کو بکھرنے نہیں دیا

جس راہ پر پڑے تھے ترے پاؤں کے نشاں
اس راہ سے کسی کو گزرنے نہیں دیا

چاہا تو چاہتوں کی حدوں سے گزر گئے
نشہ محبتوں کا اترنے نہیں دیا

ہر بار ہے نیا ترے ملنے کا ذائقہ
ایسا ثمر کسی بھی شجر نے نہیں دیا

یہ ہجر ہے تو اس کا فقط وصل ہے علاج
ہم نے یہ زخم وقت کو بھرنے نہیں دیا

اتنے بڑے جہان میں جائے گا تو کہاں
اس اک خیال نے مجھے مرنے نہیں دیا

ساحل دکھائی دے تو رہا تھا بہت قریب
کشتی کو راستہ ہی بھنور نے نہیں دیا

جتنا سکوں ملا ہے ترے ساتھ راہ میں
اتنا سکون تو مجھے گھر نے نہیں دیا

اس نے ہنسی ہنسی میں محبت کی بات کی
میں نے عدیمؔ اس کو مکرنے نہیں دیا



عدیم ہاشمی

   6
0 Comments